Sunday, March 27, 2016

Blood & death return to my city...

جس ملک میں سب کام بیرونی ہاتھ پر ڈالنے کی روش چل پڑے وھاں کوئی یہ سوال کیوں نہیں کرتا کہ یہ ہاتھ ہمارے گریبانوں تک پہنچ کیسے جاتے ہیں۔ وہ ہاتھ جن کی آبیاری یہ قوم اپنا پیٹ کاٹ کر کرتی ہے کہ ہمارا دفاع کریں گے کہاں ہیں؟ کیا ھم اور ہمارے بچے صرف مجبوری کی شہادتوں کے لیے رہ گئے ہیں؟
پارک میں کھیلتے بچوں کا تو ابلیس بھی دشمن نہیں  ہوتا ۔ بنام مذہب کون لوگ ایسا کرتے ہیں کونسا دین یہ راستہ دکھاتا ہے کونسا مذہب اس راہ پر چلاتا ہے ۔

ذہن پر خوف کی بنیاد اٹھانے والوں
ظلم کی فصل کو کھیتوں میں اُگانے والوں
گیت کے شہر کو بندوق سے ڈھانے والوں
فکر کی راہ میں بارُود بچھانے والوں
کب تک اس شاخِ گلستاں کی رگیں ٹوٹیں گی
کونپلیں آج نہ پُھوٹیں گی تو کل پھوٹیں گی

کس پہ لبّیک کہو گے کہ نہ ہوگی باہم
جوہری بم کی صدا اور صدائے گوتم
رزق برتر ہے کہ شعلہ بداماں ایٹم
گھر کے چُولھے سے اُترتی ہوئی روٹی کی قسم
زخم اچھا ہے کہ ننھی سی کلی اچھی ہے
خوف اچھا ہے کہ بچوں کی ہنسی اچھی ہے

No comments:

Post a Comment