Thursday, December 17, 2020

دہقاں ‏کی ‏دھرتی

رب نے دھرتی بنائ اور مٹی کے بنائے پتلے کو آخر اس دھرتی پر اتار دیا۔ تھی تو سزا پر اس مٹی کے پتلے نے آخر دھرتی کا سینہ چاک کیا پسینہ اور لہو اس مٹی میں ملایا تو رب کی رحمت بھی جوش میں آئی اور آسمان سے سیرابی کے لئے پانی اترا ۔ لہو پسینہ پانی اور مٹی کے اس میل نے لہلہاتے کھلیانوں کو جنم دیا۔ پھر اس دانہ گندم جس کی وجہ سے بہشت سے رخصت ہونا پڑا کو انسان نے اپنے بس میں کیا ۔ تن ڈھانپنے کو کپاس کے ریشوں سے لباس بنا لیا۔ بر نقشہ بہشت باغ آباد کر کے پھلوں کی بہار سے دل بہلایا۔ پر یہ لہو یہ پسینہ مٹی میں ملا کر دھرتی کو آباد کرنے والا دہقاں آج بھی محروم ہے کہیں وڈیروں کی جاگیر کا اسیر ہے ۔ کہیں چودھریوں کی پنچایت میں اپنی زمین اور زندگی گروی رکھوا چکا ہے ۔ کہیں اپنی ہی زمین پر سرکار کی بیگار میں ہے۔ اور آج ایک اور صیاد اسے اپنے دام میں پھانسنے کو تیار ہے سرمایہ دار کا اک نیا پنجرا اسے قید کرنے کو تیار ہے۔ شاید دھرتی پر آنا سزا ہی تھی پر اس سزا کا بڑا حصہ وہ کیوں بھگت رہا ہے جو اس دھرتی میں اپنا لہو پسینا ملا کر ہم سب کی بھوک کے لئے اناج اور ہمارے جسم کے عیب ڈھانپنے والے لباس کا انتظام کر رہا ہے۔ بہشت میں اس خوشہ گندم کے لئے ابلیس نے استحصال کیا اور دھرتی پر اترنا پڑا اب دھرتی کے استحصالی ٹولے سے بچنے کے لئے کیا موت کی چادر اوڑھ کر پھر امید بہشت لگا بیٹھے۔۔