The more I read the research oriented explanations of the evolution of our religion the more I realise how the keepers of faith today have misused it to achieve personal gains. The monsters created by the ideological mess for short term gains are now hurting us in the long term. It is about time that we all try to understand the true message by individual and collective effort, a message where humanity, humility, peace and coexistence form the major pillars. A message where even war is to be waged only to defend oneself when attacked and that too with a ethical code. Do not let religion become a name of ritualistic practices and blind following of those perceived to be the keepers. Understand before its too late, before the monsters keep shedding blood with no respect for any code or ethics and all that's left is a hollow carcass of a grand world entrusted to each of us...
Monday, July 4, 2016
Sunday, March 27, 2016
Blood & death return to my city...
جس ملک میں سب کام بیرونی ہاتھ پر ڈالنے کی روش چل پڑے وھاں کوئی یہ سوال کیوں نہیں کرتا کہ یہ ہاتھ ہمارے گریبانوں تک پہنچ کیسے جاتے ہیں۔ وہ ہاتھ جن کی آبیاری یہ قوم اپنا پیٹ کاٹ کر کرتی ہے کہ ہمارا دفاع کریں گے کہاں ہیں؟ کیا ھم اور ہمارے بچے صرف مجبوری کی شہادتوں کے لیے رہ گئے ہیں؟
پارک میں کھیلتے بچوں کا تو ابلیس بھی دشمن نہیں ہوتا ۔ بنام مذہب کون لوگ ایسا کرتے ہیں کونسا دین یہ راستہ دکھاتا ہے کونسا مذہب اس راہ پر چلاتا ہے ۔
ذہن پر خوف کی بنیاد اٹھانے والوں
ظلم کی فصل کو کھیتوں میں اُگانے والوں
گیت کے شہر کو بندوق سے ڈھانے والوں
فکر کی راہ میں بارُود بچھانے والوں
کب تک اس شاخِ گلستاں کی رگیں ٹوٹیں گی
کونپلیں آج نہ پُھوٹیں گی تو کل پھوٹیں گی
کس پہ لبّیک کہو گے کہ نہ ہوگی باہم
جوہری بم کی صدا اور صدائے گوتم
رزق برتر ہے کہ شعلہ بداماں ایٹم
گھر کے چُولھے سے اُترتی ہوئی روٹی کی قسم
زخم اچھا ہے کہ ننھی سی کلی اچھی ہے
خوف اچھا ہے کہ بچوں کی ہنسی اچھی ہے
پارک میں کھیلتے بچوں کا تو ابلیس بھی دشمن نہیں ہوتا ۔ بنام مذہب کون لوگ ایسا کرتے ہیں کونسا دین یہ راستہ دکھاتا ہے کونسا مذہب اس راہ پر چلاتا ہے ۔
ذہن پر خوف کی بنیاد اٹھانے والوں
ظلم کی فصل کو کھیتوں میں اُگانے والوں
گیت کے شہر کو بندوق سے ڈھانے والوں
فکر کی راہ میں بارُود بچھانے والوں
کب تک اس شاخِ گلستاں کی رگیں ٹوٹیں گی
کونپلیں آج نہ پُھوٹیں گی تو کل پھوٹیں گی
کس پہ لبّیک کہو گے کہ نہ ہوگی باہم
جوہری بم کی صدا اور صدائے گوتم
رزق برتر ہے کہ شعلہ بداماں ایٹم
گھر کے چُولھے سے اُترتی ہوئی روٹی کی قسم
زخم اچھا ہے کہ ننھی سی کلی اچھی ہے
خوف اچھا ہے کہ بچوں کی ہنسی اچھی ہے
Subscribe to:
Posts (Atom)