Thursday, March 28, 2013

Sarisht-e-Khak

انسان کی تخلیق مٹی سے ہوئی اور اس کا انجام بھئ مٹی۔۔۔ سفر جس بھی راہ کا ہو متی سے رابطہ و رشتہ نہیں ٹوٹ سکتا۔۔۔ اسی متی میں ایک خوبی ھے کہ قدموں تلے روندی جانے کے باوجود اس کے تہمل میں کمی نہیں آتی ۔۔۔ اس کی سرشت میں عاجزی و بردباری ہے۔۔۔ پر اس مٹی سے تخلیق شدہ انسان نے اپنی تخلیق کا واقعہ بھی بھلا دیا اور اپنے تخلیقی عنصر کی سرشت بھی۔۔۔ تکبر اور خود غرضی کی انتہا ہی کر ڈالی اور ازلی دشمن کا طور اپنا لیا۔۔۔ پر شاید بے وفائی بھی ازل سے اس کی سرشت میں موجود ھے اور اسی نے اسے محبوب حقیقی سے دور اور شجر ممنوعہ کے قرب میں مسلسل سرگرداں کر دیا
پر خاک تو خاک ہوتی ہے۔۔۔ انسان کا اس سے رشتہ اور قرب۔۔۔ عجز اور قربانی ۔۔۔ اس خاک کو اور اس ذرہ خاک کو مثل گوھر تاباں و درخشاں کر دیتا ہے ۔۔۔ تواصل مقام و مرتبہ پانے کے لیے پیکر خا کی کو مثل خاک مجسم عجز اور خاک نشیں ہونا پرٹا ہے۔ اپنی سرشت کی طرف لوٹنا ہی ہماری کامیا بی کا ذریعہ ھے ۔۔۔ شب و روز کا تسلسل زندگی نہیں بلکہ روز خاک کا خاک کی طرف سفر اور خاک میں مل کر فنا یا مسلسل بقا پا جانا ہی زندگی ہے۔۔۔

No comments:

Post a Comment